تقریباً ایک ہفتہ پہلے ہزارگنجی میں تین پولیس والوں پر حملہ، اس کے بعد فاطمہ جناح روڑ میں پہلے ٹارگٹ کلنگ اور بعد میں دھماکہ اور جمعہ کے دن پشاور میں امام بارہ گاہ کے اندر فائرنگ پھر دھماکہ، لوگوں کو خوفزدہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے ذہنوں میں ایک بار پھر کئی سوالات اور خیالات جنم لے چکے ہیں۔ ان سوالات میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔
1۔کیا یہ واقعات دہشتگردی کی ایک نئی لہر تو نہیں؟
یہ سوال لوگوں کو ایک بار خوفزدہ کر رہی ہے کہ خدا نخواستہ یہ دہشتگردی کی نئی لہر نہ ہو۔ اگر ایسا ہوا تو نجانے اس بار یہ لہر کتنی دیر چلے گی اور کتنے خاندانوں کو متاثر کرے گی۔ کچھ لوگ یہ بھی سوچ رہے ہیں کہ اس بار نجانے پھر کتنے بچے یتم، کتنے خواتین بیوہ، اور کتنے گھروں کے چراغ بجھ جائیں گے۔
2۔ کیا یہ حالات افغانستان کی وجہ سے تو نہیں؟
ہمسایہ ملک میں گزشتہ سال طالبان سارے اختیارات پر قابض ہوگئے۔ کچھ لوگوں کے قیاس کے مطابق اس کا ذمہ دار ہمارا ہی ملک ہے اور وہ اس بات پر بضد ہے کہ ہمسائے کے گھر میں آگ لگاؤ گے تو تمہارا گھر بھی جلے گا۔ اور اب تک سردیوں کی وجہ سے ہمسایہ ملک میں امن تھی۔ اب سردیاں ختم ہونے کے ساتھ ساتھ امن بھی ختم ہوجائے گی۔ وہاں پر ایک بار پھر لڑائیاں شروع ہوجائیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارا ملک بھی متاثر ہوگا۔ یہ دونوں واقعات انہی کی شروعات لگ رہی ہیں۔
3۔ کہیں ان واقعات کے پیچھے خاص ادارے کا ہاتھ تو نہیں؟
بلوچستان کے عوام نے گزشتہ دو دہائیاں دہشتگردی میں گزارے۔ ان واقعات میں ہزاروں بےگناہ شہید اور ہزاروں لوگ زخمی اور اپاہج ہوگئے۔ بلوچستان کے عوام بالعموم اور کوئٹہ کے عوام بالخصوص یہ مشاہدہ کرچکے ہیں کہ جب بھی خاص ادارے کی مدت پوری ہونے والی ہوتی ہے تو دہشتگردی کا ایک بڑا واقعہ ہوجاتا ہے اور بعد میں اس ادارے کی مدت میں توسیع کر دی جاتی ہے۔ اب چونکہ ہائیکورٹ کی طرف سے اس ادارے کو شہروں سے بھیجنے اور ان کے چیک پوسٹوں پر پولیس طعینات کرنے کا حکم جاری کیا گیا ہے اور اب تک کوئٹہ میں اس ادارے کے کئی چیک پوسٹیں ختم ہوگئے ہیں جبکہ بہت سے چیک پوسٹوں پر پولیس طعینات ہوگئے ہیں۔ جبکہ میجوریٹی چیک پوسٹوں پر ابھی تک اس ادارے کے حضرات اپنی خدمات سرانجام دے رہےہیں۔ چونکہ اب شہروں میں ادارے کی تعداد کم ہوگئے ہیں تو حالیہ واقعات نے ایک بار پھر کوئٹہ کے عوام کے ذہنوں پر گزشتہ سوچ دہرانے پر مجبور کیا ہے کہ ان واقعات کے پیچھے اس ادارے کا ہاتھ نہ ہو اور وہ اپنی تعداد میں پھر سے اضافہ نہ کرنا چاہتا ہو۔
4۔ دکانداروں کا ٹارگٹ کلنگ دراصل دکانداروں کو بازار سے بےدخل کرنا تو نہیں؟۔
نوے کی دہائی تک کوئٹہ شہر اور بازاروں میں اقلیتوں ( پنجابی، سندھی، سرائیکی اور ہزارہ) کی تعداد بہت زیادہ تھی جبکہ اکیسویں صدی کے پہلے دہائی میں ان اقلیتوں کو ٹارگٹ کلنگ اور دھماکے کا نشانہ بنانے کے بعد ان کی تعداد بازاروں اور سریاب روڑ سے نہ صرف کم ہوگئی بلکہ ختم ہوگئی اور ان کا فائدہ ایک خاص طبقے کو ہوا۔ اب یہ واقعات ایک بار پھر لوگوں کے دماغ میں وہی سوال ڈال رہی ہے کہ کہی پھر دکانداروں کو نشانہ بناکر انہیں بازاروں سے بےدخل کرنا تو نہیں؟
5۔ کہیں پھر سے کالعدم جماعت کو بےلگام تو نہیں کیا گیا ہے؟
گزشتہ دو دہائیوں میں ہونے والے دہشتگردی کی ذمہ داری ہمیشہ کالعدم جماعت “اہل سنت ولجماعت” ہی قبول کرتی تھی ایسا لگتا تھا کہ ان کو بےلگام چھوڑ دیا گیا تھا اسی وجہ سے تو کوئٹہ شہر کے بلکل درمیان میں واقع “ہاکی گراؤنڈ” میں جلسہ کرکے بڑے فخر سے اعتراف جرم کیا تھا ( کہ ٹک ٹک نہیں کھیلتے بلکہ ایک ہی بار میں سینچری بناتے ہیں) ان کا یہ بیان ڈائریکٹ 10 جنوری اور 16 فروری 2013 میں ہونے والے بڑے دھماکے کی طرف تھا جس میں سینکڑوں بےگناہ شہید اور زخمی ہوگئے تھے۔ قابل شرم بات یہ تھی کہ ایف سی والے ان کے جلسے کی نہ صرف حفاظت کرتے تھے بلکہ ان کے چیک پوسٹوں کی موجودگی میں وہ لوگ بندوقوں کے ساتھ آزادانہ اور بے خوف ایسے گھومتے تھے جیسے ایف سی والے عوام کے نہیں بلکہ کالعدم دہشتگرد جماعت کے محافظ ہیں۔ آج ان واقعات کا دوبارہ رونما ہونا لوگوں کے دلوں میں یہ خدشہ پیدا کر رہی ہے کہ کہیں پھر سے کالعدم دہشتگرد جماعت کو بےلگام نہ کیا گیا ہو۔
سوال جو بھی ہو، لوگوں کے خیالات چاہے صحیح ہو یا غلط مگر ہمارے نمائندوں اور عوام کو خاموش نہیں بیٹھنا چاہیئے۔ ایک بڑے حادثے کا انتظار نہیں کرنا چاہیئے بلکہ بھر پور انداز میں احتجاج کرنے کے ساتھ ساتھ محتاط بھی رہنا چاہئے اور لا انفورسمنٹ ایجنسیز پر بھی زور دینا چاہئے کہ ان واقعات کو روکنے کی کوشش کریں۔