دوہرا معیار

شادی بیاہ زندگی کا اہم حصہ ہے زندگی میں ہر کوئی غالبا” شادی کرنا چاہتا ہے اور کرتا بھی ہے۔ ویسے بھی محاورہ مشہور ہے کہ شادی کا لڈو جو کھائے بھی پچھتائے اور جو نہ کھائے وہ بھی پچھتائے۔ بہت سے لوگ شادی کرکے خوشحال زندگی گزار رہے ہیں بعض اوقات زندگی میں تلخلیاں آتی ہیں اور مسائل تو زندگی میں چائے پر جمی ہوئی ملائی کی طرح ہے یہ تو انسان پر منحصر کرتا ہے کہ وہ ملائی کو اٹھاکر پھینکتے ہیں یا پوری چائے پھینکتے ہیں۔ خیر یہ تو ایک الگ مسئلہ ہے مگر میں یہاں پر شادی بیاہ کیلئے ہونے والے دوغلے معیار کے بارے میں لکھ رہا ہوں۔
بعض لوگوں کے بیٹے نکمے یا بیروزگار یا چرسی ہو تو ان کے گھر والے یا ان کے رشتہ دار مشورہ دیتے ہیں کہ ان کی شادی کراو اس پر زمہ داری آجائے تو اس کو احساس ہوجائے گا اور وہ ٹھیک ہوجائے گا لہذا ان کے گھر والے اس کیلئے لڑکی ڈھونڈنے نکل جاتے ہیں ان کی شادی کراتے ہیں شادی کے بعد بعض لوگوں میں احساس زمہ داری آکر ٹھیک بھی ہوجاتے ہیں اور بعض پہلے کی طرح ہی رہ جاتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی ذمہ دار اور معمولی نوکری والے شخص کا رشتہ اسی گھر میں یا اس کے رشتہ دار کے گھر آجائے (جو کل تک اپنے نکما، غیر زمہ دار یا چرسی بیٹے یا رشتہ دار کیلئے لڑکی ڈھونڈنے نکلے تھیں) تو وہ اس کو اس وجہ سے ریجیکٹ کرتے ہیں کہ اس لڑکے کے پاس اچھی نوکری نہیں وہ اسکے بیٹی کو سنبھال نہیں سکتے۔
بعض لوگ اپنی بیٹی کا رشتہ یہاں نہیں کرانا چاہتے لڑکے والے کتنے ہی اچھے خاندان والے ہی کیوں نہ ہو یا لڑکا خود بھی اچھی نوکری کا مالک کیوں نہ ہو پھر بھی اسے منع کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ اس کی بیٹی کی شادی کوئی بیرونی ممالک میں بسنے والے سے ہی ہوجائے۔ لیکن وہی لوگ اپنے بیٹے ( جوکہ یہاں پر دکانداری یا معمولی نوکری کرتا ہے ) کیلئے یہاں سے ہی لڑکی ڈھونڈ کر اسکی شادی کراتے ہیں۔ایسے خاندان بھی موجود ہےجو اپنے بیٹے کی شادی کسی طلاق شدہ یا بیوہ سے نہیں کرانا چاہتے ہیں بلکہ اس کیلئے حتی الامکان کوشش کرتے ہیں کہ کسی غیر طلاق شدہ سے ہی اس کی شادی کرائے لیکن اگر خدا نخواستہ اس کے گھر میں کوئی طلاق شدہ یا بیوہ ہو تو وہ لوگ اس امید پر بیٹھتے ہیں اور یہی دعا کرتے ہیں کہ کوئی اچھا اور غیر شادی شدہ لڑکے سے ہی اسکی شادی ہوجائے۔
ایسے لوگ بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں جو اپنے عمر رسیدہ لڑکے کیلئے جوان لڑکی جس کی عمر 18 سے20 ہو تلاش کرتے ہیں لیکن اپنی عمر رسیدہ لڑکی کیلئے کسی جوان رشتے کیلئے سرگرداں ہوتے ہیں۔ میں نے ایسے لوگوں کو بھی دیکھا ہے جنہوں نے اپنی بیٹی کا رشتہ ایسے لوگوں کو دینے سے انکار کیا جس کے گھر کچے مکانوں پر مشتمل ہو حالانکہ وہ لوگ خود بھی کچے مکان میں ہی رہتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی دیکھا ہے جو رکشہ ڈرائیور یا گاڑی ڈرائیور کو رشتہ دینے سے انکار کیا ہے جبکہ اسکا اپنا بیٹا بھی رکشہ چلاتا ہے۔ اکثر لوگ کسی دکاندار کو اپنی بیٹی کا رشتہ دینے سے انکار کرتے ہیں کہ اس کی آمدنی زیادہ نہیں جبکہ اسی گھر کے سارے افراد کا انحصار دکان پر ہی ہے۔ ایسے حضرات بھی ہوتے ہیں جو نمازی اور روزہ دار داماد چاہتے ہیں جبکہ اس کا اپنا بیٹا نماز اور روزہ سے اتنا دور ہے جیسا ٹرین پنکچر ہونے سے۔ بہت سے لوگوں کو ایسی بہو چاہئے جو کسی بھی اسکول میں خاص طور پر پرائیویٹ اسکول کا ٹیچر نہ ہو یا کسی بینک وغیرہ میں کام نہ کرتی ہو جبکہ اسکے اپنی ہی بیٹی پرائیویٹ اسکول میں پڑھاتی ہے۔