کرایہ

سو لفظوں کی کہانی ۔۔۔

عابد: سنا ہے آپ گھر کی دوسری منزل کرایہ پر دینا چاہتے ہیں۔
فرمان: صحیح سنا ہے۔
عابد: کتنا کرایہ رکھا ہے؟
فرمان: ایڈوانس 15لاکھ، ماہانہ کرایہ 30ہزار
عابد: بہت زیادہ نہیں؟
فرمان: ماہانہ 30ہزار کون سا مہنگا ہے؟
عابد: غریب لوگ ماہانہ 30ہزار کماتے نہیں۔ کرایہ کس طرح ادا کریں؟
فرمان: ضرورت مند لوگ لے لیں گے۔
عابد: ایڈوانس ایک یا دولاکھ رکھیں تاکہ ضرورت مند باقی رقم سے کاروبار کرکے کرایہ کا بندوبست کرسکیں۔
فرمان: چھوڑو ان باتوں کو چلو سبزی روڑ سے سبزی خریدتے ہیں۔: گھر کے نزدیک جو سبزی والے ہیں ان سے خریدیں۔
فرمان: یہ لوگ گران فروش ہیں ہر چیز 20 ،30 روپے مہنگی دیتے ہیں۔

ٹپ اور کرایہ! سو لفظوں کی کہانی

فاطمہ: ویٹر!
ویٹر: جی میڈم!
فاطمہ: مینو دیجئے۔
ویٹر: لیجئے میڈم۔
فاطمہ: ہمارے لئے 3 اسپیشل برگر، 1 درمیانی پیزا ، 1 رشیئن سلاد اور 3شوگر فری سپرائٹ لائیں۔
ویٹر: ok میڈم!
فاطمہ: کتنا وقت لگے گا؟
ویٹر: بس 20منٹ۔
ویٹر: لیجئے آپ کا آرڈر۔
فاطمہ: تھینک یو۔
فاطمہ: ویٹر! بل لائیں کتنا ہوا؟
ویٹر: یہ لیجئے، 4000 روپے ہوگیا۔
فاطمہ: یہ لیں 5000روپے، 1000روپے آپ کا ٹپ۔
ویٹر: تھینک یو میڈم۔
آصفہ: ٹپ بہت زیادہ نہیں دیا؟
فاطمہ: کوئی بات نہیں؛ چلیں۔
آصفہ: ٹھیک ہے چلیں۔
فاطمہ: رکشہ!
عابد: کہا جانا ہے؟
فاطمہ: ناصرآباد۔
عابد: بیٹھ جائیں۔
فاطمہ: کرایہ کتنا لوگے؟
عابد: 200 روپے۔
فاطمہ: یہ تو بہت زیادہ ہے۔
عابد: پیٹرول مہنگا ہوگیا ہے۔
فاطمہ: 180روپے میں جانا ہے تو ٹھیک، ورنہ ہم دوسرا رکشہ لیں گے۔
عابد: بیٹھ جائیں۔

جلاو گیراو

سو لفظوں کی کہانی
عمیر دودھ میں پانی ملا رہا تھا کہ اسے مسجد کے لاوڈ اسپیکر سے یہ آواز سنائی دی۔ ”بھائیوں جلدی سے مسجد کے پاس جمع ہو جائیں، دو مسیحی بھائیوں نے قرآن کی بے حرمتی کی ہے ہمیں جاکر انہیں سبق سیکھانا ہو گا۔“ یہ سن کر عمیر نے اپنا کام ادھورا چھوڑ کر غصے کی حالت میں ہاتھ میں ڈنڈا لیا اور دل میں سوچا، کہ ان کی یہ جرات کہ ہمارے قرآن پاک کی بے حرمتی کرے۔ جب وہ جلاؤ گیراؤ سے فارغ ہوا، تو فوراً گھر پہنچا اور جوسرمشین کو ایک طرف رکھ کر دوبارہ اپنے ادھورے کام سے جت گیا۔

ذمہ داری

کسی کا قول ہے کہ زندگی کو کسی پاگل کی طرح گزارو، تاکہ لوگوں کو آپ کی فکر رہے اور اگر سمجھدارانہ زندگی گزاروگے تو آپ کو لوگوں کی فکر کرنا پڑے گی۔ زندگی گزارنے کے مختلف طریقے ہیں، لیکن بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ زندگی گزارنے کے دو طریقے ہیں۔ مثلاً: موٹیویشنل اسپیکرز کہتے ہیں کہ زندگی گزارنے کے دو طریقے ہیں، ایک کامیاب زندگی اور دوسرا ناکام زندگی؛ بہت سے مصنفین لکھتے ہیں کہ ایک دانشمندانہ زندگی ہے اور دوسرا جاہلانہ زندگی؛ مولوی حضرات کی نظر کی میں ایک دین کی راہ پر چلنے والی زندگی ہے اور دوسرا بے دینی کی زندگی ہے؛ ٹھیک اسی طرح اکثر لوگوں کی نظر میں ایک کاروباری زندگی ہے اور دوسرا نوکری والی زندگی۔ جبکہ میری نظر میں بھی زندگی گزارنے کے دو ہی طریقے ہیں ایک ذمہ دارانہ زندگی اور دوسرا بری الذمہ زندگی۔

اگر دیکھا جائے تو ہر کسی کی نکتہ نظر بالکل درست ہے۔ جیسا کہ: اگر موٹیویشنل اسپیکرز کی نظر سے دیکھیں تو معاشرے میں یہی دو قسم کے لوگ ہی ملیں گے ایک کامیاب اور دوسرا ناکام۔ ٹھیک اسی طرح مصنفین اور مولوی حضرات کے نکتہ نظر سے بھی کسی کو اعتراض نہیں۔ اور رہی ذمہ دارانہ اور بری الزمہ زندگی، یہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں اور شاید ہی کوئی اس پر معترض ہوں۔ معاشرے کے ہر گھر میں ایسے دو قسم کے افراد موجود ہیں۔ ایک وہ، جو اپنے گھر کے تمام اخراجات، والدین کی خدمت اور بہن بھائیوں کے ذمہ داری اپنے سر لے کر انہیں ان کے پاؤں پر کھڑے کرنے کی کاوشوں میں جتے رہتا ہے۔ جبکہ دوسرا وہ، جو خود کو ہر طرح کی خانگی اور معاشرتی ذمہ داریوں سے خودساختہ بری الذمہ قرار دے کر مفت اور بے زحمت آمدن سے اپنی عیاشیوں اور شاہ خرچیوں میں مگن رہتا ہے۔

اکثر گھروں کے بڑے بیٹے شادی کے بعدخاندان میں، ماں باپ اور بہن بھائیوں کے اخراجات سے خود کو بری الذمہ قرار دیتے ہیں۔ جبکہ بعض افراد شادی کرنے کے بعد صرف بہن بھائیوں کے اخراجات اٹھانے سے انکار کرتے ہیں اورمعاشرے میں ایسے افراد کی بھی کمی نہیں، جو شادی کے بعد گھر کے اخراجات سے بھی باخبر رہتے ہیں اور ساتھ میں اپنے بہن بھائیوں کو بھی سپورٹ کرتے ہیں۔ بعض لوگوں کی تنخواہ یا آمدنی نہایت قلیل ہوتی ہے، جس سے وہ اپنے بیوی بچوں کے اخراجات بمشکل پورا کرتے ہیں۔ ایسے افراد شادی کے بعد اگر گھر کے اخراجات اور بہن بھائیوں کو سپورٹ کرنے سے اجتناب کرتے ہیں، تو ان سے کوئی گلہ نہیں بنتا۔ لیکن معاشرے میں ایسے افراد کی بھی بھرمار ہے، جس کی تنخواہ یا آمدنی اچھے خاصے ہوتے ہیں، جس سے وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ساتھ والدین اور بہن بھائیوں کے اخراجات بھی باآسانی برداشت کرسکتے ہیں۔ لیکن باوجود این ہمہ وہ تنگ دلی کا مظاہرہ کرکے اپنے آپ کو ان سے بری الذمہ قرار دیتے ہیں۔ ایسے لوگ ایسا کچھ اکثر اپنی بیویوں کے کہنے پر کرتے ہیں۔ اکثر خواتین تو اپنے شوہروں کو ان کے گھربار کی ذمہ داریوں سے دور رکھنے کے لئے اور اپنے ہی مستقبل کو بہتر بنانے کی لالچ میں انہیں ان کے ماں باپ سے جدا کرکے، اپنے شوہر وں کے پیسوں سے اپنے ماں باپ کو سپورٹ کرتے ہیں۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ دنیا مکافات عمل ہے اور جب ان کے اپنے بچے بڑے ہو جائیں گے، تو ان کو بھی درپیش اسی ناروا سلوک کا سامنا ہوں گے۔

اکثر گھروں کے بڑے بیٹے اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کے لئے کچھ نہ کرنے کے باوجود ان کے لئے بڑی بڑی قربانیوں کے دعوے کرتے ہیں اور اسی بابت مختلف محفلوں میں بیٹھ کر من گھڑت داستانیں سناتے نہیں تکتے، تاکہ معاشرے کی نظروں میں ان کی عزت و احترام برقرار رہیں۔ لیکن ان عزت و احترام کا کیا فائدہ، جو ان کے اپنے ہی ماں باپ ان سے نا خوش ہوں۔ میں ایسے افراد کو بھی جانتا ہوں جو آسٹریلیا اور یورپ میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں اور اپنی بہن بھائیوں کو سپورٹ کرنا چھوڑ ہی دیں، یہاں تک کہ مہینوں، سالوں سے اپنے ماں باپ سے ٹیلیفونک حال احوال نہیں کرتے، کجا کہ ان کے لئے تھوڑی بہت جیب خرچ ہی بھیج دیں۔ کیونکہ وہ خود کو بری الذمہ قرار دے کر ماں باپ کی خدمت و تواضع کو گھر میں موجود دوسرے بھائیوں کے ذمہ داری سمجھتے ہیں۔

معاشرے میں ایسے نیک اور ذمہ دار اشخاص بھی موجود ہیں جو بوڑھے والدین کے گذرنے کے بعد وہ اپنے بال بچوں کی کفالت کے ساتھ ساتھ اپنے بہن بھائیوں کے ذمہ داریوں کو بھی بخوبی نبھاتے ہیں اور انہیں ان کے پیروں پر کھڑا کرکے ان کے گھربار بھی بسائے ہیں۔ مگر افسوس، کہ معاشرے میں ایسے نگینے بہت کم یاب ہیں۔

امتحانات اور طالب علموں میں نقل کا رجحان ہر سال بالعموم پاکستان اور بالخصوص بلوچستان میں آٹھویں، میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات شروع ہوتے ہی طالب علموں میں نقل کا رحجان بھی زور و شور سے شروع ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں جہاں کہیں بھی امتحان ہو، وہاں نقل ضرور ہوتا ہے اور یہی وہ آسان وجہ ہے جس کی سبب طلبا و طالبات پڑھائی میں دلچسپی نہیں لیتیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ امتحانی ہال میں ہی جب آسانی سے نقل مل جاتی ہے، تو انہیں مزید پڑھنے کی ضرورت کیا ہے۔ بعض طلبا یا طالبات پڑھنے والے ہوتے ہیں، مگر جب بورڈ امتحان میں نقل کی وجہ سے نالائق دوستوں کے نمبرز جب ان سے زیادہ آجاتے ہیں، تو وہ دلبرداشتہ ہوکر پڑھنا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ حالانکہ انہیں اساتذہ سمجھانے کی بہت کوشش کرتے ہیں، کہ دلبرداشتہ نہ ہوں، پڑھائی مت چھوڑنا اور نقل کرنے والوں کا راستہ ہمیشہ بند ہی ہوتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ وہ انٹرمیڈیٹ تک نقل کرکے اچھے نمبروں سے پاس ہوجائیں گے، مگر اس کے بعد یونیورسٹی یا مختلف اسکالرشپس کے امتحانات میں نقل کا دروازہ ان پر بند ہوں گے۔ اس بات پر بہت سے طلبا و طالبات میں حوصلہ تو پیدا ہو جاتا ہے، مگر زیادہ تر کو ایسی باتیں مذاق ہی لگتی ہیں اور دوبارہ پڑھائی کی طرف آنے سے گریز کرتے ہیں۔

پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو دیکھی۔ جس میں یہ دکھایا گیا، کہ ایک امتحانی ہال میں تمام طلبا کے پاس موبائل ہے اور سب موبائل سے دیکھ کر اپنا امتحانی پرچہ حل کررہے ہیں۔ اسی طرح کی ایک اور ویڈیو بھی تھی، جسے کسی لڑکی نے بنائی تھی۔ اس ویڈیو میں وہ لڑکی امتحان دینے والی لڑکیوں کی ویڈیو دکھا رہی تھی، کہ کس طرح امتحانی ہال میں لڑکیاں نقل کرنے میں مصروف ہیں۔ پھر وہ لڑکی ممتحنہ/Examiner کی طرف کیمرہ کرکے کہہ رہی تھی، کہ یہ ہم سب کی پسندیدہ مس ہے۔ (شاید اسی لئے پسندیدہ ہو، کیونکہ وہ ان سب کو نقل کرنے کی مکمل چھوٹ دیتی تھی) پاکستان اور خاص طور پر بلوچستان سے نقل کا خاتمہ تو بالکل ناممکن ہے اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔

بلوچستان سے نقل کا خاتمہ نہ ہونے کی ایک وجہ ”والدین“ خود ہیں۔ والدین خود امتحان کے دنوں میں امتحانی مراکز جا کر سپریٹنڈنٹ سے اپنے بچوں کی سفارش کرتے ہیں کہ انہیں امتحان میں نقل کرنے کی چھوٹ دے دیں، تاکہ ان کے بچے اچھے نمبروں سے پاس ہوجائیں۔ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ میں اچھے نمبر آجائیں تو ٹھیک ہے۔ کیونکہ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ میں حاصل کردہ نمبر زیادہ ہو تو مختلف اسکالرشپس حاصل کرنے اور مختلف یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے کی چانسز زیادہ ہوجاتے ہیں۔ جبکہ آٹھویں جماعت میں کسی بھی طالب علم کا نمبر چاہے زیادہ ہو یا کم، اس سے اسکالرشپس اور یونیورسٹی میں داخلے پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مگر افسوس اس بات پر بہت ہی زیادہ ہوتا ہے کہ بہت سے والدین آٹھویں جماعت کے امتحان کے لئے بھی ایگزیمنر سے اپنے بچے کو نقل کرنے کی منتیں کرتے ہیں۔ افسوس اس بات پر اور بھی زیادہ ہوتا ہے کہ والدین خود یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ان کے بچے پڑھنے والے نہیں ہیں۔ اس کے باوجود وہ ان کی سفارش کرتے ہیں، تاکہ امتحان میں ان کے نمبر زیادہ آجائے۔ اگر نقل سے آٹھویں، میٹرک اور انٹرمیڈیٹ میں کسی بچے کا نمبر زیادہ آجائے اور اسے کچھ آتا بھی نہ ہو تو اس کا فائدہ کیا؟ انٹرمیڈیٹ کے بعد وہ اسکالرشپس یا مختلف یونیورسٹویوں میں داخلہ تو نقل سے حاصل نہیں کرسکتے۔

نقل ختم نہ ہونے کی ایک وجہ خود اساتذہ اور چپڑاسی صاحبان بھی ہیں۔ یعنی بہت سے اساتذہ خود امتحانات کے دنوں اپنے عزیز و اقارب کو نقل پہنچاتے ہیں یا ان کی سفارش متعین ممتحن/Examiner سے کرتے ہیں۔ بہت سے اساتذہ ایسے بھی ہیں جو امتحانات کے دنوں اپنے کسی رازدار اسٹیشنری والے سے 50 فیصد کی بنیاد پر نقل کی فوٹواسٹیٹ تیار کراتے ہیں۔(یعنی: نقل کی منفعت سے ملنے والی کل رقم کا نصف حصہ) امتحانی ہال سے جب پرچہ کسی چپڑاسی یا پرچے کی تصویر واٹس ایپ کی مدد سے اسٹیشنری والوں تک پہنچ جاتا ہے، تو مختلف اساتذہ اسے جلدی جلدی حل کرکے فوٹو کاپی بنانے کے لئے دیتے ہیں۔ جب اسٹیشنری والے سارے سوالات کی حل شدہ کاپی نکال کر تمام سوالات کے سیٹ بناتے ہیں، تو متعلقہ امتحانی ہال کا چپڑاسی یا پرچہ دینے والوں کے یار، دوست اسے اسٹیشنری والوں سے خریدتے ہیں۔ چپڑاسی اپنے پیسوں سے خریدے گئے نقل کا سیٹ بنا کر امتحانی ہال میں دوبارہ داخل ہوتا ہے اور بچوں پر انہیں دگنے تگنے دام پر فروخت کرتا ہے اور اگر پرچہ دینے والوں کے باہر بیٹھے ہوئے یار، دوستوں سے نقل کا سیٹ متعلقہ طالب علم تک پہنچانے کے لئے لے گا، تو وہ اس کا معاوضہ وصول کرتا ہے۔ بلوچستان کے بعض ایسے اسکولز اور کالجز بھی ہیں جہاں نقل کا سیٹ پہنچانے کے لئے چپڑاسیوں کی ضرورت نہیں پڑتیں، بلکہ والدین اور یار دوست امتحانی ہال میں داخل ہو کر نقل اپنے دوست یا بیٹے تک پہنچا کر ایسا فخر محسوس کرتے ہیں، کہ گویا اس نے دنیا فتح کی ہوں۔

نقل ختم نہ کرنے کی سب سے بڑی وجہ خود بورڈ آفس والے بھی ہیں۔ یہ لوگ خود نقل کو ختم نہیں کرانا چاہتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بورڈآفس والے بہت سے امتحانی ہالز کو بھیجتے ہیں۔ یعنی امتحانی ہال میں بطور سپریٹنڈنٹ لگنے کے لئے اساتذہ سے اچھی خاصی رقم وصول کرتے ہیں۔ جب اساتذہ رقم دے کر اپنے من پسند امتحانی ہال میں بطور سپریٹنڈنٹ اپنی فرائض انجام دینے کے لئے منتخب ہوتا ہے، تو وہی اساتذہ چپڑاسیوں سے دگنا رقم وصول کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے چپڑاسی کھلے عام بچوں کو نقل کا سیٹ بھیجتا ہے۔ اسی طرح نقل کو ختم نہ کرنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ بورڈ آفس والے چاہتے ہیں کہ بچے زیادہ سے زیادہ پاس ہوجائیں، تاکہ ان کی کارگردگی بہتر سے بہتر دکھائی دیں۔

بہرحال: پڑھائی سے بیزار ایک طالب علم، نقل کرنے سے چاہے جتنا بھی زیادہ نمبر حاصل کرے اس کا مستقبل تاریک ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ ایف ایس سی کے بعد مختلف اسکالرشپ یا اچھے یونیورسٹی میں داخلہ حاصل نہیں کرسکتے۔

تو کیا یہ بہتر نہیں، کہ کیوں نہ؛ ایسے معیوب فعل دہرانے کی بجائے، بہ نفس نفیس طلبا و طالبات کتابوں ہی سے ”نقل“ اتار اتار کر اپنے دماغوں اور ذہنوں کو فربہ بنایا جائے؟

سیاست اور فتوی’

سیاست کا لغوی معنی حکومت، ملکی انتظام، سلطنت، دھمکی اور سزا ہے۔ مگر بالعموم پاکستان اور بالخصوص بلوچستان میں سیاست کا مطلب ایک دوسرے کو ننگا کرنے سے مراد لیا جاتا ہے۔ یعنی جو ایک دوسرے کو اچھی طرح سے ننگا کرے گا وہی بہترین سیاستدان سمجھا جائے گا۔ پہلے پہل مختلف سیاسی پارٹیاں ہی سیاست میں حصہ لیتی تھیں، مگر اب مذہبی پارٹیاں بھی بہت زور و شور سے حصہ لے رہی ہیں۔ 1970ء کی دہائی میں جب مذہبی جماعتوں کو عرب ملکوں سے امداد ملنی شروع ہوئی تو ان کا سیاسی کردار مذہبی کردار سے زیادہ اہم ہوگیا۔ اب وہ محض سیاسی ہی بن کر رہ گئی ہیں اور ان کا مقصد دین کی تبلیغ یا دفاعِ مذہب کی بجائے اقتدار پر قبضہ کرنا یا اقتدار میں شراکت داری رہ گیا ہے۔ اس کی مختلف وجوہ ہوسکتی ہیں، مگر ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ملک کو مذہبی انداز سے بہتر ترقی دے سکتے ہیں۔ یوں اپنے مخالفین کو شکست دینے کے لئے وہ مختلف حربے استعمال کرتے ہیں، جن میں ایک مذہبی کارڈ کا استعمال ہے، دوسرا مخالفین کے خلاف فتوے بازیاں اور تیسرا مختلف مقدس چیزوں کی قسم دلوانا ہے۔

مذہبی پارٹیاں اپنے انتخابی نشان کی نسبت کو بھی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر 1970ء میں جب انتخابات ہوئے تو ایک مذہبی پارٹی اپنے انتخابی نشان ”چابی“ کو جنت کی چابی قرار دے کر یہ کہتی تھی، کہ: ”جو شخص جنت کی چابی کو ووٹ دے گا وہ جنت میں جائے گا۔“ اسی بنا پر وہ پارٹی ژوب، لورالائی اور پشین کی نشستوں سے اکثریت سے جیتی تھی۔ حتیٰ کہ جب لوگوں نے عورت کے ووٹ ڈالنے کے بارے میں ان سے سوال کیا تھا تو جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ ان بیچاریوں کا کیا قصور؟ کیا جنت عورتوں کے لئے نہیں ہے؟ انہیں بھی جنت میں جانے کی اجازت ہے۔ اسی طرح 2013ء کے الیکشن میں ایک اور مذہبی جماعت نے اپنے انتخابی نشان ”خیمہ“ کو امام حسین(ع) کے خیمے سے نسبت دے کر ووٹ مانگا اور الیکشن جیتا۔ جبکہ پاکستان کے باقی صوبوں اور شہروں سےانہیں ایک سیٹ بھی نہیں مل سکی۔

مذہبی پارٹیوں کا دوسرا بڑا ہتھیار فتویٰ ہے۔ وہ ہمیشہ اپنے مخالفین کے خلاف فتوے جاری کرتے رہتے ہیں، کبھی انہیں کافر قرار دے کر عوام کو ان کے خلاف ورغلاتے ہیں تو کبھی فاشسٹ کے نام پر انہیں زیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنے مخالفین کو نیچا دکھانے کے لئے مذہبی جماعتیں اس حد تک چلی جاتی ہیں کہ ناجائز یا غلط چیز کو بھی اپنے لئے جائز اور درست قرار دیتی ہیں جبکہ مخالفین کی جائز اور درست چیز کو بھی ناجائز اور غلط کہنے سے نہیں کتراتیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک مولانا صاحب نے کچھ سال پہلے مدرسے میں اعتکاف میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے لئے فتوی جاری کیا کہ: ”اگر ان کی پارٹی کو ووٹ دینے کے لئے اعتکاف سے بھی اٹھنا پڑا تو تمہارا اعتکاف نہیں ٹوٹے گا لیکن اگر مخالف پارٹی کو ووٹ دینے کے لئے جاؤگے تو تمہارا اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔“ اسی طرح ایک اور مولوی سے جو عموماً فیس بک پر تبلیغ کرتے نظر آتے ہیں، کسی نے پوچھا کہ اگر کوئی شخص اپنی رقم نیشنل سیونگ اکاؤنٹ میں رکھے تو اس سے ملنے والے فائدے/Interests کی رقم حلال ہوگی یا حرام؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ: ”اگر انٹرسٹ کا آدھا حصہ مجتہدین (یعنی مولویوں) کو دیا جائے، تو حلال  ورنہ حرام ہوگا۔“

مذہبی پارٹیوں کا تیسرا ہتھیار مقدس مقامات یا پھر مقدس چیزوں کی قسم دلوانا ہے۔ مثال کے طور پر بعض مذہبی پارٹیاں مدینہ، کعبہ یا پھر قرآن پاک کی قسم دلوا کر ووٹ حاصل کرتی ہیں۔ جبکہ بعض اپنے مرد ووٹروں کو ”علم حضرت عباس“ کی قسم دے کر ووٹ مانگتی ہیں جبکہ خواتین کو بی بی زہرا سلام علیہا کی چادر کا واسطہ دے کر ووٹ بٹورنے اور الیکشن جیتنے کا خواب دیکھتی ہیں۔

افسوس اس بات پر نہیں، کہ مذہبی لوگ دین کو اپنے فائدے کے لئے کیوں استعمال کرتے ہیں، بلکہ افسوس تو اس بات پر ہے کہ عوام ان کی مکاریوں سے واقف ہوکر بھی ان کے پیروکار بنتے چلے جا رہے ہیں۔

مذہبی پارٹیوں کی طرح سیاسی پارٹیاں بھی کسی نہ کسی چیز(مثلاً: قومیت اور ثقافت وغیرہ) کو بنیاد بناکر ووٹ مانگتی ہیں۔ لیکن عوام کو چاہیے کہ پارٹیوں کی کارگردگیوں کا موازنہ کریں اور خاص طور پر ان کے منشور کا بغور مطالعہ کرکے کسی ایک امیدوار کو ووٹ دیں۔

ناممکن

لوگ اکثر کہتے رہتے ہیں کہ دنیا میں کوئی بھی چیز ناممکن نہیں۔ یہ بات ایک حد تک بلکل درست ہے۔ جیسے گراہم بیل اور تھامس ایڈیسن نے بڑی کوششوں کے بعد ٹیلی فون اور بجلی ایجاد کیا تھا، انسان نہ صرف مریخ تک پہنچ گئے بلکہ سمندر کی تہہ تک بھی رسائی حاصل کی جو کبھی ناممکن دکھائی دیتے تھے۔ لیکن اب بھی دنیا میں بہت سے کام ایسے ہیں جن کا انجام دینا ناممکن ہے۔  مثلا” ٹوٹ پیسٹ کو خالی کرنے کے بعد اس کی ٹیوب کو واپس پہلے کی طرح بھرنا، کشمش کو واپس انگور بنانا، ٹوٹے ہوئے شیشے واپس جوڑنا، کسی بھی نئے فنکشن میں لڑکیوں کا پرانے کپڑوں کے ساتھ جانا، شادی کے اسٹیج پر دلہن کا بغیر سونے اور میک اپ کے بیٹھ جانا، سہاگ رات میں لڑکیوں کی پاکیزگی اور پاک دامنی کے ثبوت پیش نہ کرنا، پولیس کا رشوت نہ لینا، وی آئی پی کے آنے پر سڑکوں کو بلاک نہ کرنا، آج کل کے بچوں کو پیمپر کے بجائے کپڑے لگانا، آج کل کی شادی بیاہ میں دلہن کو جہیز میں ٹیب ریکاڈر اور وی سی آر دینا، آج کل کے ٹی وی کو اینٹینا کی مدد سے چلانا،  بغیر وضو کے نماز پڑھنا، ڈاکٹروں کا بغیر فیس کے مریض کا معائنہ یا آپریشن کرنا، فلم میں عورت کا نہ ہونا، بغیر چارج کے موبائل استعمال کرنا، سیاستدانوں میں سے جھوٹ، فریب اور مکاری کا کیڑا ختم کرنا، سیاست میں ایک دوسرے پر کیچڑ نہ اچھالنا، سرکاری اساتذہ اور سرکاری ملازمین میں ایمانداری کا جذبہ پیدا کرنا اور ان کے بچوں کو سرکاری تعلیمی اداروں سے تعلیم دلوانا، موٹرسائیکل، لیپ ٹاپ، موبائل اور انٹرنیٹ کے ہوتے ہوئے بچوں کا تعلیم پر توجہ دینا، سیاستدانوں کے بچوں کو پاکستانی تعلیمی اداروں سے ڈگری دلوانا، آرمی والوں کا سویلین ڈیپارٹمنٹ میں سویلین کی نوکریوں پر قبضہ نہ کرنا، کوئٹہ کینٹ میں بغیر شناختی کارڈ یا کینٹ پاس کے جانا، مہمان کا میزبان کے گھر جاکر وائی فائی کا پاسورڈ نہ مانگانا، ائیر پورٹ میں رن وے پر سپیڈبریکر لگانا  اور سب سے اہم چیز مولویوں کا انسان بننا۔

پاکستانی معیشت

ہر ملک کے ترقی کا دارومدار اس کی معیشت پر ہے۔ اکیسویں صدی کے آج تیسرے عشرے میں جو ممالک ترقی یافتہ ہیں وہ دراصل اپنی معیشت ہی کی وجہ سے ہیں اور جو ممالک پسماندہ یا ترقی پذیر ہیں وہ بھی اپنی معیشت کی وجہ سے ہیں۔ گویا ہر ملک کی معیشت اس کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، جس طرح انسان کی اگر ریڑھ کی ہڈی میں ذرا سی اونچ نیچ ہو تو وہ اپاہیچ ہو کر بیساکھیوں کے سہارے چلنے پر مجبور ہو جاتا ہے، ٹھیک اسی طرح کسی بھی ملک کی معیشت اچھا نہ ہو تو وہ بھی بیساکھیوں کے طور پر دوسروں کے سہارے پر چلنے پر مجبور ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان بھی انہی ممالک میں شامل ہے جس کی ریڑھ کی ہڈی(معیشت) اچھا نہیں ہے اور آج یہ آئی ایم ایف، ایشیائی ترقیاتی بینک اور سعودی عرب کے سہارے پر چلنے پر مجبور ہے۔

2018ء کے انتخابات میں پاکستانی عوام نے عمران خان کو اس کے پیش از انتخابات امید افزا بیانات کے تحت اس اُمید کے ساتھ ووٹ دے کر کامیابی سے ہمکنار کیا کہ ملکی معیشت میں سدھار لانے والا وہ ہی شاید واحد مسیحا ہوں گے، جو مختلف سیاستدانوں کے بٹورے ہوئے اربوں اربوں ڈالرز کو باہر کے ممالک سے واپس پاکستان لائے گا اور آئی ایم ایف سے نہ صرف قرضہ نہیں لے گا بلکہ آئی ایم ایف کا قرضہ بھی واپس کریں گا۔ مگر بدقسمتی سے وہ اپنے 4 سال کے طویل عرصے میں اپنے کیے گئے وعدوں میں نہ صرف ناکام ہوا، بلکہ اس نے آئی ایم ایف سے مزید قرضہ لے کر مزید ملکی معیشت کو کمزور کیا۔ عمران خان نے اپنی دور حکومت میں ملکی معیشت کو بہتر بنانے کے لئے یہ تجویز پیش کی تھی، کہ ملک کے اربوں روپے ریٹائرڈ سرکاری ملازمین ”Pension/پنشن“ کے طور پر وصول کررہے ہیں۔ اگر انہیں منسوخ کرکے اس بوجھ سے ملکی خزانے کو سبکدوش کر دیا جائے تو ہر سال اربوں روپوں کی بچت ہوگی، جن سے ملکی معیشت کو تھوڑا بہت سہارا ضرور ملے گا۔ مگر عمران خان کیوں یہ بات بھول گئے کہ سرکاری ملازمین اپنی زندگی کے قیمتی 25 سے 30 سال نہ صرف وقف کرتے ہیں بلکہ ان کی ماہانہ تنخواہ سے ان کی پنشن کے لئے مخصوص رقم کاٹی بھی جاتی ہے۔ اگر عمران خان ملکی معیشت کو تھوڑا بہت بھی سہارا دینا چاہتے تو اپنے دور اقتدار میں صوبائی اور قومی اسمبلی ممبران کے سالانہ کھربوں روپوں کے شاہانہ مراعات کو سلب کرکے ان پر کرپشن کے تمام دروازے بند کرتے، جو پنشنرز کے 25-30 سال کی بجائے محض 5 سال کے لئے صوبائی یا قومی اسمبلی کے ممبر بنتے ہیں اور مردار خوروں کا یہ طبقہ اپنے پانچ سالہ دور میں مراعات اور کرپشن کے پیسے اتنے بٹورتے ہیں جو لاکھوں پنشنرز کے وظیفوں سے گئی گنا زیادہ بنتا ہے، جن پر عمران خان صاحب نے اپنی عقابی نظریں جمائے رکھی تھی۔

ملک کی معیشت کو بہتر بنانے کے لئے خارجہ پالیسی کو بہتر بنانا پڑتی ہے اور برآمدات و درآمدات میں توازن رکھنے کے ساتھ ساتھ تمام اشیا(بالخصوص اشیائے خورد و نوش) کی قیمتوں پر کنٹرول رکھنا ہوتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے آج تک زیادہ تر حکمرانوں نے عوامی رفاہ کی خاطر اینجانب توجہ ہی نہیں دی ہے۔ گذشتہ سات دہائیوں سے آج تک ملک کے مختلف بارڈرز سے بہت سی اشیا غیرقانونی طور پر برآمد یا درآمد ہوتی رہی ہیں جن پر کوئی ٹیکس وصول کیا ہی نہیں جا سکتا۔ اسی طرح ایک عام کریانہ فروش اور قصاب سے لے کر ایک سبزی فروش تک بھی مختلف اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں مقرر کردہ سرکاری نرخوں پر نہیں بیچتے۔ جس کی مثال لیموں، گوشت اور ٹماٹر کی حالیہ قیمتیں ہیں جو آسمان کو چھو رہی ہیں مگر اس کے مقابل حکومت بے بس نظر آرہی ہے یا جانے بوجھے صرف نظر کر رہی ہے۔ حکومتی اس روش کی ایک اور زندہ مثال یہ ہے کہ تین چار ماہ قبل سردیوں میں مری کے ہوٹل مالکان نے ایک رات میں کمروں کے کرائے بیس سے پچیس ہزار تک وصول کرتے تھے جبکہ عام دنوں میں ان کا کرایہ دو یا تین ہزار سے زیادہ نہیں ہوتے تھے۔ مختلف ٹیکسز کی مد میں وصولیاں کسی ملک کی معیشت کو سہارا دینے کے لئے ایک مضبوط ستون کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اگر ہر پاکستانی کے ساتھ ساتھ چند گنے چنے ٹیکس چور اور طفیلی مگرمچھوں سے بھی ٹیکس وصول کیا جائے تو ملکی معیشت کو ٹھیک ٹھاک سہارا ملے گا۔ یہی وہ وجوہ ہیں کہ ہر سال ایف بی آر کی طرف سے مقررہ تاریخ پر ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کو مزید مہلتیں دیا جاتا ہے تاکہ وہ ٹیکس ادا کرے۔ ان میں سے اکثر ٹیکسوں سے چھٹکارا پانے کے لئے اپنے اثاثہ جات چھپاتے بھی ہیں، جن کی وجہ سے روزافزوں معیشت پر بہت برا اثر پڑتا رہتا ہے۔

2021ء میں عمران خان کی حکومت نے ٹیکس چوروں کے لئے ایک قانون بنایا تھا، وہ یہ کہ ٹیکس بچانے کی غرض سے آمدن کے ذرائع خفیہ رکھنے یا ٹیکس گوشوارے مقررہ وقت تک جمع نہ کرانے کو جرم قرار دیا گیا، جس کی سزا جرمانے کے علاوہ قید بھی ہو سکتی ہے۔ ٹیکس قوانین کے ماہر احمد ہمایوں کا کہنا ہے کہ نئے اس قانون کا مقصد ٹیکس چوروں کے گرد گھیرا تنگ کرنا اور انہیں ہر صورت ٹیکس ادا کرنے اور گوشوارے جمع کروانے پر مجبور کرنا ہے۔ بہت سے لوگ(بالخصوص کارخانہ مالکان) بجلی اور گیس چوری کرکے بھی پاکستانی معیشت کو کمزور کررہے ہیں جس کی وجہ سے ملک کو ہر ماہ اربوں روپوں کا نقصان بھگتنا پڑتا ہے۔ ہمیں پاکستانی معیشت کو مضبوط بنانا ہوگا اور یہ کام صرف حکومت کا نہیں بلکہ ہماری انفرادی ذمہ داری بھی ہے، اس کے لئے ہمیں اپنے آپ میں تبدیلی لانا ہوگی۔ جب تک فرد فرد معاشرہ خود کو بدلنے کی کوشش نہیں کریں گے، تب تک اسی طرح حکومت بھی ہمیں بے بس نظر آئے گی۔ ہمیں اپنے اثاثے چھپانے کی بجائے ٹیکس ادا کرنے ہوں گے، بجلی اور گیس چوری کی بجائے ان کے بلوں کی ادائیگیاں کرنا ہوگی اور حکومت کے مقرر کردہ قیمتوں پر ہی چیزیں بیچنا اور خریدنا ہوں گی۔ اگر ہم حکومت کی مدد نہیں کریں گے تو ہمیں بھی کوئی حق نہیں حاصل کہ حکومت اور سیاستدانوں کو چور چور کہہ کر اپنا گلا خشک کریں۔

واقعات سوالات اور خیالات

تقریباً ایک ہفتہ پہلے ہزارگنجی میں تین پولیس والوں پر حملہ، اس کے بعد فاطمہ جناح روڑ میں پہلے ٹارگٹ کلنگ اور بعد میں دھماکہ اور جمعہ کے دن پشاور میں امام بارہ گاہ کے اندر فائرنگ پھر دھماکہ، لوگوں کو خوفزدہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے ذہنوں میں ایک بار پھر کئی سوالات اور خیالات جنم لے چکے ہیں۔ ان سوالات میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔

1۔کیا یہ واقعات دہشتگردی کی ایک نئی لہر تو نہیں؟
یہ سوال لوگوں کو ایک بار خوفزدہ کر رہی ہے کہ خدا نخواستہ یہ دہشتگردی کی نئی لہر نہ ہو۔ اگر ایسا ہوا تو نجانے اس بار یہ لہر کتنی دیر چلے گی اور کتنے خاندانوں کو متاثر کرے گی۔ کچھ لوگ یہ بھی سوچ رہے ہیں کہ اس بار نجانے پھر کتنے بچے یتم، کتنے خواتین بیوہ، اور کتنے گھروں کے چراغ بجھ جائیں گے۔

2۔ کیا یہ حالات افغانستان کی وجہ سے تو نہیں؟
ہمسایہ ملک میں گزشتہ سال طالبان سارے اختیارات پر قابض ہوگئے۔ کچھ لوگوں کے قیاس کے مطابق اس کا ذمہ دار ہمارا ہی ملک ہے اور وہ اس بات پر بضد ہے کہ ہمسائے کے گھر میں آگ لگاؤ گے تو تمہارا گھر بھی جلے گا۔ اور اب تک سردیوں کی وجہ سے ہمسایہ ملک میں امن تھی۔ اب سردیاں ختم ہونے کے ساتھ ساتھ امن بھی ختم ہوجائے گی۔ وہاں پر ایک بار پھر لڑائیاں شروع ہوجائیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارا ملک بھی متاثر ہوگا۔ یہ دونوں واقعات انہی کی شروعات لگ رہی ہیں۔

3۔ کہیں ان واقعات کے پیچھے خاص ادارے کا ہاتھ تو نہیں؟
بلوچستان کے عوام نے گزشتہ دو دہائیاں دہشتگردی میں گزارے۔ ان واقعات میں ہزاروں بےگناہ شہید اور ہزاروں لوگ زخمی اور اپاہج ہوگئے۔ بلوچستان کے عوام بالعموم اور کوئٹہ کے عوام بالخصوص یہ مشاہدہ کرچکے ہیں کہ جب بھی خاص ادارے کی مدت پوری ہونے والی ہوتی ہے تو دہشتگردی کا ایک بڑا واقعہ ہوجاتا ہے اور بعد میں اس ادارے کی مدت میں توسیع کر دی جاتی ہے۔ اب چونکہ ہائیکورٹ کی طرف سے اس ادارے کو شہروں سے بھیجنے اور ان کے چیک پوسٹوں پر پولیس طعینات کرنے کا حکم جاری کیا گیا ہے اور اب تک کوئٹہ میں اس ادارے کے کئی چیک پوسٹیں ختم ہوگئے ہیں جبکہ بہت سے چیک پوسٹوں پر پولیس طعینات ہوگئے ہیں۔ جبکہ میجوریٹی چیک پوسٹوں پر ابھی تک اس ادارے کے حضرات اپنی خدمات سرانجام دے رہےہیں۔ چونکہ اب شہروں میں ادارے کی تعداد کم ہوگئے ہیں تو حالیہ واقعات نے ایک بار پھر کوئٹہ کے عوام کے ذہنوں پر گزشتہ سوچ دہرانے پر مجبور کیا ہے کہ ان واقعات کے پیچھے اس ادارے کا ہاتھ نہ ہو اور وہ اپنی تعداد میں پھر سے اضافہ نہ کرنا چاہتا ہو۔

4۔ دکانداروں کا ٹارگٹ کلنگ دراصل دکانداروں کو بازار سے بےدخل کرنا تو نہیں؟۔
نوے کی دہائی تک کوئٹہ شہر اور بازاروں میں اقلیتوں ( پنجابی، سندھی، سرائیکی اور ہزارہ) کی تعداد بہت زیادہ تھی جبکہ اکیسویں صدی کے پہلے دہائی میں ان اقلیتوں کو ٹارگٹ کلنگ اور دھماکے کا نشانہ بنانے کے بعد ان کی تعداد بازاروں اور سریاب روڑ سے نہ صرف کم ہوگئی بلکہ ختم ہوگئی اور ان کا فائدہ ایک خاص طبقے کو ہوا۔ اب یہ واقعات ایک بار پھر لوگوں کے دماغ میں وہی سوال ڈال رہی ہے کہ کہی پھر دکانداروں کو نشانہ بناکر انہیں بازاروں سے بےدخل کرنا تو نہیں؟

5۔ کہیں پھر سے کالعدم جماعت کو بےلگام تو نہیں کیا گیا ہے؟
گزشتہ دو دہائیوں میں ہونے والے دہشتگردی کی ذمہ داری ہمیشہ کالعدم جماعت “اہل سنت ولجماعت” ہی قبول کرتی تھی ایسا لگتا تھا کہ ان کو بےلگام چھوڑ دیا گیا تھا اسی وجہ سے تو کوئٹہ شہر کے بلکل درمیان میں واقع “ہاکی گراؤنڈ” میں جلسہ کرکے بڑے فخر سے اعتراف جرم کیا تھا ( کہ ٹک ٹک نہیں کھیلتے بلکہ ایک ہی بار میں سینچری بناتے ہیں) ان کا یہ بیان ڈائریکٹ 10 جنوری اور 16 فروری 2013 میں ہونے والے بڑے دھماکے کی طرف تھا جس میں سینکڑوں بےگناہ شہید اور زخمی ہوگئے تھے۔ قابل شرم بات یہ تھی کہ ایف سی والے ان کے جلسے کی نہ صرف حفاظت کرتے تھے بلکہ ان کے چیک پوسٹوں کی موجودگی میں وہ لوگ بندوقوں کے ساتھ آزادانہ اور بے خوف ایسے گھومتے تھے جیسے ایف سی والے عوام کے نہیں بلکہ کالعدم دہشتگرد جماعت کے محافظ ہیں۔ آج ان واقعات کا دوبارہ رونما ہونا لوگوں کے دلوں میں یہ خدشہ پیدا کر رہی ہے کہ کہیں پھر سے کالعدم دہشتگرد جماعت کو بےلگام نہ کیا گیا ہو۔

سوال جو بھی ہو، لوگوں کے خیالات چاہے صحیح ہو یا غلط مگر ہمارے نمائندوں اور عوام کو خاموش نہیں بیٹھنا چاہیئے۔ ایک بڑے حادثے کا انتظار نہیں کرنا چاہیئے بلکہ بھر پور انداز میں احتجاج کرنے کے ساتھ ساتھ محتاط بھی رہنا چاہئے اور لا انفورسمنٹ ایجنسیز پر بھی زور دینا چاہئے کہ ان واقعات کو روکنے کی کوشش کریں۔

خدا اور ملا

خدا بھی ملاووں/مولویوں کیخلاف ہے۔
شہید ابراہیم ہزارہ پر کفر کا فتوی جاری کرکے اسے شہید کرنے والوں کا آج نام و نشان نہیں مگر شہید ابراہیم کو آج بھی ہر ہزارہ طالبعلم جانتے ہیں۔ شہید بابا مزاری کے برسی منانے کیخلاف فتوی دینے والے آج خود نیست نابود ہوچکے ہیں مگر شہید بابامزاری کا برسی آج بھی عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے۔ ہزارگی نوحہ اور ہزارگی گانا کو حرام قرار دینے والے حرامخوروں کا آج وجود نہیں مگر آج تک ہزارگی نوحہ اور گانا پڑھا اور گایا جاتا ہے۔ ہزارگی ثقافت کیخلاف بھونکنے والے بہت سے کتے زیر خاک ہوچکے ہیں ( اور کچھ زندہ ہے ) مگر ہزارگی ثقافت نہ صرف منایا جاتا ہے بلکہ اسلام آباد کے لوگ ورثہ میں ایک ڈایوراما سیٹ بھی موجود ہے۔
سرسید احمد خان اور علامہ اقبال کو کتنے مولویوں نے کافر کہا؟ مگر آج ساری دنیا سر سید احمد خان اور علامہ اقبال کو جانتے ہیں مگر ان مولویوں کو کوئی نہیں جانتا۔ قائداعظم کو کافراعظم کا لقب دینے والے خاک ہوگئے مگر قائداعظم آج تک زندہ ہے۔ پاکستان کو کفرستان کہنے والوں کا آج وجود ہی نہیں مگر پاکستان اب تک ساری دنیا کیلئے ایک اسلامی ملک حقیقت کے طور پر وجود رکھتی ہے۔
پس اس سے ثابت ہوا کہ مولوی خود کفر ہے اور مولوی جس کے خلاف ہوجائے اللہ اسے عزت دیتا ہے جبکہ مولوی کے وجود کو ایسے مٹائے گا کہ اس کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہتا۔ مولویوں کی مخالفت سے گھبرانے کی ضرورت نہیں اور مولویوں کے غلط باتوں سے کھل کے مخالفت کریں اللہ آپ کو عزت دےگا اور اسے رسوا کرےگا۔ “دین” مولویوں کا ذاتی جائداد ہے اور نہ ہی مولویوں کی مخالفت “دین” کی مخالفت ہے۔