جلاو گیراو

سو لفظوں کی کہانی
عمیر دودھ میں پانی ملا رہا تھا کہ اسے مسجد کے لاوڈ اسپیکر سے یہ آواز سنائی دی۔ ”بھائیوں جلدی سے مسجد کے پاس جمع ہو جائیں، دو مسیحی بھائیوں نے قرآن کی بے حرمتی کی ہے ہمیں جاکر انہیں سبق سیکھانا ہو گا۔“ یہ سن کر عمیر نے اپنا کام ادھورا چھوڑ کر غصے کی حالت میں ہاتھ میں ڈنڈا لیا اور دل میں سوچا، کہ ان کی یہ جرات کہ ہمارے قرآن پاک کی بے حرمتی کرے۔ جب وہ جلاؤ گیراؤ سے فارغ ہوا، تو فوراً گھر پہنچا اور جوسرمشین کو ایک طرف رکھ کر دوبارہ اپنے ادھورے کام سے جت گیا۔

ذمہ داری

کسی کا قول ہے کہ زندگی کو کسی پاگل کی طرح گزارو، تاکہ لوگوں کو آپ کی فکر رہے اور اگر سمجھدارانہ زندگی گزاروگے تو آپ کو لوگوں کی فکر کرنا پڑے گی۔ زندگی گزارنے کے مختلف طریقے ہیں، لیکن بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ زندگی گزارنے کے دو طریقے ہیں۔ مثلاً: موٹیویشنل اسپیکرز کہتے ہیں کہ زندگی گزارنے کے دو طریقے ہیں، ایک کامیاب زندگی اور دوسرا ناکام زندگی؛ بہت سے مصنفین لکھتے ہیں کہ ایک دانشمندانہ زندگی ہے اور دوسرا جاہلانہ زندگی؛ مولوی حضرات کی نظر کی میں ایک دین کی راہ پر چلنے والی زندگی ہے اور دوسرا بے دینی کی زندگی ہے؛ ٹھیک اسی طرح اکثر لوگوں کی نظر میں ایک کاروباری زندگی ہے اور دوسرا نوکری والی زندگی۔ جبکہ میری نظر میں بھی زندگی گزارنے کے دو ہی طریقے ہیں ایک ذمہ دارانہ زندگی اور دوسرا بری الذمہ زندگی۔

اگر دیکھا جائے تو ہر کسی کی نکتہ نظر بالکل درست ہے۔ جیسا کہ: اگر موٹیویشنل اسپیکرز کی نظر سے دیکھیں تو معاشرے میں یہی دو قسم کے لوگ ہی ملیں گے ایک کامیاب اور دوسرا ناکام۔ ٹھیک اسی طرح مصنفین اور مولوی حضرات کے نکتہ نظر سے بھی کسی کو اعتراض نہیں۔ اور رہی ذمہ دارانہ اور بری الزمہ زندگی، یہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں اور شاید ہی کوئی اس پر معترض ہوں۔ معاشرے کے ہر گھر میں ایسے دو قسم کے افراد موجود ہیں۔ ایک وہ، جو اپنے گھر کے تمام اخراجات، والدین کی خدمت اور بہن بھائیوں کے ذمہ داری اپنے سر لے کر انہیں ان کے پاؤں پر کھڑے کرنے کی کاوشوں میں جتے رہتا ہے۔ جبکہ دوسرا وہ، جو خود کو ہر طرح کی خانگی اور معاشرتی ذمہ داریوں سے خودساختہ بری الذمہ قرار دے کر مفت اور بے زحمت آمدن سے اپنی عیاشیوں اور شاہ خرچیوں میں مگن رہتا ہے۔

اکثر گھروں کے بڑے بیٹے شادی کے بعدخاندان میں، ماں باپ اور بہن بھائیوں کے اخراجات سے خود کو بری الذمہ قرار دیتے ہیں۔ جبکہ بعض افراد شادی کرنے کے بعد صرف بہن بھائیوں کے اخراجات اٹھانے سے انکار کرتے ہیں اورمعاشرے میں ایسے افراد کی بھی کمی نہیں، جو شادی کے بعد گھر کے اخراجات سے بھی باخبر رہتے ہیں اور ساتھ میں اپنے بہن بھائیوں کو بھی سپورٹ کرتے ہیں۔ بعض لوگوں کی تنخواہ یا آمدنی نہایت قلیل ہوتی ہے، جس سے وہ اپنے بیوی بچوں کے اخراجات بمشکل پورا کرتے ہیں۔ ایسے افراد شادی کے بعد اگر گھر کے اخراجات اور بہن بھائیوں کو سپورٹ کرنے سے اجتناب کرتے ہیں، تو ان سے کوئی گلہ نہیں بنتا۔ لیکن معاشرے میں ایسے افراد کی بھی بھرمار ہے، جس کی تنخواہ یا آمدنی اچھے خاصے ہوتے ہیں، جس سے وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ساتھ والدین اور بہن بھائیوں کے اخراجات بھی باآسانی برداشت کرسکتے ہیں۔ لیکن باوجود این ہمہ وہ تنگ دلی کا مظاہرہ کرکے اپنے آپ کو ان سے بری الذمہ قرار دیتے ہیں۔ ایسے لوگ ایسا کچھ اکثر اپنی بیویوں کے کہنے پر کرتے ہیں۔ اکثر خواتین تو اپنے شوہروں کو ان کے گھربار کی ذمہ داریوں سے دور رکھنے کے لئے اور اپنے ہی مستقبل کو بہتر بنانے کی لالچ میں انہیں ان کے ماں باپ سے جدا کرکے، اپنے شوہر وں کے پیسوں سے اپنے ماں باپ کو سپورٹ کرتے ہیں۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ دنیا مکافات عمل ہے اور جب ان کے اپنے بچے بڑے ہو جائیں گے، تو ان کو بھی درپیش اسی ناروا سلوک کا سامنا ہوں گے۔

اکثر گھروں کے بڑے بیٹے اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کے لئے کچھ نہ کرنے کے باوجود ان کے لئے بڑی بڑی قربانیوں کے دعوے کرتے ہیں اور اسی بابت مختلف محفلوں میں بیٹھ کر من گھڑت داستانیں سناتے نہیں تکتے، تاکہ معاشرے کی نظروں میں ان کی عزت و احترام برقرار رہیں۔ لیکن ان عزت و احترام کا کیا فائدہ، جو ان کے اپنے ہی ماں باپ ان سے نا خوش ہوں۔ میں ایسے افراد کو بھی جانتا ہوں جو آسٹریلیا اور یورپ میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں اور اپنی بہن بھائیوں کو سپورٹ کرنا چھوڑ ہی دیں، یہاں تک کہ مہینوں، سالوں سے اپنے ماں باپ سے ٹیلیفونک حال احوال نہیں کرتے، کجا کہ ان کے لئے تھوڑی بہت جیب خرچ ہی بھیج دیں۔ کیونکہ وہ خود کو بری الذمہ قرار دے کر ماں باپ کی خدمت و تواضع کو گھر میں موجود دوسرے بھائیوں کے ذمہ داری سمجھتے ہیں۔

معاشرے میں ایسے نیک اور ذمہ دار اشخاص بھی موجود ہیں جو بوڑھے والدین کے گذرنے کے بعد وہ اپنے بال بچوں کی کفالت کے ساتھ ساتھ اپنے بہن بھائیوں کے ذمہ داریوں کو بھی بخوبی نبھاتے ہیں اور انہیں ان کے پیروں پر کھڑا کرکے ان کے گھربار بھی بسائے ہیں۔ مگر افسوس، کہ معاشرے میں ایسے نگینے بہت کم یاب ہیں۔