سو لفظوں کی کہانی

خود غرضی

ایک جوڑا کرایہ کے مکان میں رہتا تھا۔ پہلے تو انہوں نے سوچا کہ کوئی گھر خریدیں مگر آمدنی کم  اور گھر مہنگا ہونے کی وجہ سے گھر نہیں خرید سکے۔ چند سال بعد اسکے ہاں بیٹا پیدا ہوا۔ بیٹے کو پڑھا لکھا کر تعلیم یافتہ بنایا۔ اپنی خواہشات کا گلہ گھونٹ کر بیٹے کی خواہشات پوری کرتے تھے۔ خود بھوکے رہتے تھے بیٹے کو بھوکا سونے نہیں دیتے۔کئی سال بعد بیٹے کو اچھی نوکری ملی۔ بیٹے نے پہلے اپنے لئے گاڑی خریدی پھر شادی کرکے اپنا گھر بسایا۔ بوڑھے ماں باپ ابھی تک کرایہ کے مکان میں رہتے ہیں۔

سو لفظوں کی کہانی

“بےحسی”

احمد: کہا جارہے ہو اور یہ ہاتھ میں کیا ہے؟

سجاد: فٹبال گراونڈ پر احتجاج کرنے جارہا ہوں۔ چلو تم بھی میرے ساتھ چلو۔

احمد: میں تو فٹبال نہیں کھیلتا تو پھر احتجاج کرنے کیوں جاوں؟

سجاد: مجھے بھی فٹبال کھیلنا نہیں آتا مگر میں آنے والے نسل کیلئے اور ان نوجوانوں کیلئے جارہا ہوں جو فٹبال کھیلتے ہیں اگر یہ گراونڈ ان چار لاکھ آبادی کے ہاتھ سے نکل گیا تو اسکا انجام نہایت خطرناک ہوسکتا ہے۔

احمد: مجھے احتجاج سے کیا؟

سجاد: ہاں آپ جیسوں کو بس دعا، ماتم، دمبورہ اور ثقافتی رقص سے ہی غرض ہے۔

سو لفظوں کی کہانی

“ڈبل سواری”

کہاں جا رہے ہو؟

سر گھر جارہے ہیں۔

کہاں سے آرہے ہو؟ اور یہ بستے میں کیا ہے؟

سر ٹیوشن کلاسز سے آرہے ہیں اور بستے میں کتابیں ہیں۔

کونسی کلاس میں پڑھتے ہو؟

بارہویں کلاس میں۔

تو پھر موٹرسائیکل پر ڈبل سواری کیوں جارہے ہو؟ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ڈبل سواری پر پابندی ہے؟

معلوم ہے۔

تو پھر؟

سوری آئندہ ڈبل سواری پر نہیں جائیں گے۔

جاو اس مرتبہ معاف کیا آئندہ نہ دیکھوں۔

گھر پہنچا تو نیوز چینل پر خبر سنی کہ دو موٹرسائیکل پر چار نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 5 بےگناہ شہید ہوئے ہیں۔

نئے سال کی خوشیاں

دہشتگرد وہی، دہشتگردوں کے عزائم وہی، ریاست وہی ریاستی سرپرستی وہی، مذمتی بیان وہی تین دن کا سوگ وہی، لوگ وہی لوگوں کے دو چار دن کا غم و غصہ وہی، حکومت وہی قانون وہی، پارلیمنٹ وہی اسمبلیاں وہی، سیاستدان وہی سیاست وہی، پشت پناہی وہی پالیسی وہی، عدالتیں وہی کٹہرے وہی، قاتل وہی مقتول وہی، مولوی وہی مذہبی منافرت وہی، وہی آزادی وہی زنجیریں، وہی نفرتیں وہی بغض و کینہ، وہی جاہلیت وہی فتوے،اور تو اور سال کے بارہ مہینے ہفتے، دن اور ہر ساعت وہی کی وہی تو پھر نئے سال کی خوشیاں کیوں؟