سو لفظوں کی کہانی

​کرپشن

میثم: ایک مہینے سے آپ آفس کیوں نہیں جارہے ہو؟

اعجاز: آفس جاکر کیا کرنا ہے بیٹھنا ہی تو ہے۔

میثم: کیوں؟ آفس میں کوئی کام نہیں ہے کیا؟

اعجاز: کام تو بہت ہے مگر مجھے نہیں آتا۔

میثم: پھر نوکری کیسے ملی؟

اعجاز: ارے بھولے بادشاہ!سفارش کی خیر ہو۔

میثم: آپ کا باس کچھ نہیں کہتا؟

اعجاز: وہ تو خود کہتےہیں تم آفس آنے کی زحمت ہی نہ کرو۔

میثم: پھر ماہانہ تنخواہ نہیں ملتی ہوگی۔

اعجاز: ملتی ہے الاونسس سمیت 30،000 ملتی ہے۔

میثم: اب کیا کرنے کا ارادہ ہے؟

اعجاز: بس سوچ رہا ہوں کرپشن کیخلاف احتجاج کرنے اسلام آباد جاؤ۔

سو لفظوں کی کہانی

نوکری

نقیب اللہ اچکزئی: ماں مجھے نوکری مل گئی

ماں: کس چیز کی نوکری ملی ہے؟

نقیب اللہ: پولیس کی نوکری۔

ماں: شکر ہے اللہ کا۔ اب میں تمہارے لئے ایک پیاری سی لڑکی ڈھونڈ کر تمہاری شادی کروانگی۔

نقیب اللہ: نہیں ماں، اب نہیں۔ چھ مہینے بعد ڈھونڈ لینا جب میں ٹریننگ مکمل کرکے واپس آونگا۔

چھ مہینے بعد نقیب اللہ اپنی ماں کو فون کرکے خوشخبری سناتا ہے

نقیب اللہ:میری ٹریننگ مکمل ہوگئی ہے بس ایک ہفتے میں گھر آونگا۔

ماں نےخوشی سےمٹھائیاں بانٹی۔

صبح اطلاع ملی پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملہ ہوا اور نقیب اللہ شہید ہوگیا ہے۔

سو لفظوں کی کہانی

“نذر و نیاز”

“میں نذر ونیاز کرنا چاہتی ہوں تم بھی اپنا حصہ دیدو”۔ میری ماں نے مجھ سے کہا

” آپ کے پاس کتنی رقم ہے”؟ میں نے سوال کیا

 “30،000 ہے اگر تم اپنا حصہ دوگے تو ایک گائے کی قربانی ہوسکتی ہے”۔ ماں نے جواب دیا

“ماں اپنی 30،000 مجھے دیدو میں اس پر اپنا حصہ رکھ کر لائبریری کیلئے نئی کرسیاں اور کتابیں خریدونگا”۔ میں نے مشہورہ دیا

“تم اپنا حصہ نہیں دینا چاہتے تو مت دو فضول مشہورہ نہ دو، محرم میں نذر ونیاز صرف چاول گوشت سے ہوتا ہے کرسیاں اور کتابیں خریدنے سے نہیں”۔ماں نےغصے میں جواب دیا