ہماری سوچ

​میں فیس بک استعمال نہیں کرتا۔ میرے ایک دوست نے ایک دن اپنے فیسبک سے ایک تصویر سکرین شاٹ کرکے بھیجی۔ اس تصویر میں کسی نے مشورہ دیا تھا کہ “ہزارہ عیدگاہ میں لائبریری کو شہید میجر جواد علی چنگیزی کے نام سے منسوب کرنا چاہئے”۔ شہید میجرجواد علی چنگیزی کے اہل خانہ سے ہمدردی مجھے بھی ہے اور واقعی شہید میجر جواد علی چنگیزی کی قربانی لازوال ہے۔ وہ واقعی میں ایک بہادر اور نڈرانسان تھے لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ لائبریری کو میجر کے نام سے منسوب کیا جائے؟ اس لڑکے کے مشورے سے ہماری سوسائٹی کی اجتماعی سوچ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ہماری سوسائٹی میں ہمیشہ آرمی آفیسرز، بیوروکریٹس اور وزراء کو دوسرے شعبوں میں کام کرنے والے پر ترجیع دی گئی ہے۔ چاہے وہ دکان کا افتتاح ہو یا تعلیمی ادارے کا افتتاح، کھیل کے میدان ہو یا تقریری مقابلہ، ہوٹل ہو یا مارکیٹ، ہمیشہ سے انہی لوگوں کو دعوت دی جاتی ہیں۔ مختلف ادبی تقاریب میں بھی صدارت کیلئے کسی بیوروکریٹ یا فوجی یا وزیر کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ حالانکہ دکان کی افتتاح کیلئے کسی بڑے تاجر کو افتتاح کیلئے دعوت دینی چاہئے۔ تعلیمی ادارے کیلئے کسی پروفیسر یا لیکچرر کو، کھیل کے میدان میں کسی مشہور کھلاڑی کو مہمان خصوصی، اور تقریری مقابلے میں کسی اچھے مقرر کو بطور مہمان خاص دعوت دینا چاہئے مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ کھیل کےمیدان میں، تقریری مقابلےمیں کسی وزیر یا بیوروکریٹ کو بطور مہمان خصوصی دعوت دی جاتی ہیں۔ دکان یا تعلیمی ادارے کی افتتاح کیلئے بھی یہی صورتحال ہے مگر ہم نے کبھی کھیل کے میدان میں کسی کھلاڑی کو بطور مہمان خاص نہیں دیکھا۔ ہم نے کبھی کسی تعلیمی ادارے کی افتتاح کیلئے کسی پروفیسر یا لیکچرر کو نہیں دیکھا۔ ہم نے کبھی کسی تقریری مقابلے میں کسی مقرر کو مہمان خاص کے طور پر نہیں دیکھا۔ ہم نے میجر نادر انسٹیٹوٹ، علی ظہیر کانفرنس حال دیکھےہیں۔ ہم نے جنرل موسی روڑ، کرنل یونس روڑ، میجر محمدعلی روڑ، میجر نادر روڑ، برگیڈیر خادم اسٹریٹ تو دیکھے ہیں مگر ہم نے کبھی محسن چنگیزی، طالب حسین طالب، لیاقت عاجز، یاسین ضمیر، مصطفی شاہد، حسن رضا چنگیزی یا نسیم جاوید کانفرنس حال یا میٹنگ روم یا لائبریری یا روڑ نہیں دیکھیں۔ ہماری سوسائٹی کو صرف بیوروکریٹ یا فوجی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ مصنف، شاعر، انجینئر، ڈاکٹر اور تاجر کی بھی ضرورت ہے ہمیں چاہئے کہ مختلف روڑ، کانفرنس حال اور مختلف میٹینگ روم کو اپنے شاعر اور مصنف کے نام سے منسوب کریں تاکہ طلباء اور طالبات میں ادب کا شوق بھی پیدا ہوجائیں۔ اور ہمیں چاہئے کہ ہر پروگرام میں اسی شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین کو دعوت دینی چاہئے اور ہاں! جہاں تک لائبریری کی بات ہے تو میرا مشہورہ ہے کہ اسے جلد بحال کرکے اپنے کسی شاعر یا مصنف کے نام سے منسوب کیا جائے کہی ایسا نہ ہو کہ ہمارے آپس کے جھگڑے کا فائدہ اٹھا کر مسلم لیگ نون والے اس کا نام مریم نواز لائبریری رکھے یا پھر پیپلزپارٹی والے اس لائبریری کا نام محترمہ بےنظیر بھٹو لائبریری رکھ دے۔

سو لفظوں کی کہانی

فضول خرچی
پہلا دوست: “کہاں جارہے ہو؟”
دوسرا دوست: “چلو میرے ساتھ۔”
پہلا: “پَر کہاں؟”
دوسرا: “چلو بازار چلتے ہیں مجھے کچھ خریدنا ہے۔”
پہلا: ” لیکن خریدنا کیا ہے؟”
دوسرا: “باڈی سپرے، پرفیوم اور گھڑی خریدنا ہے”
پہلا: “تمہارے کلائی میں موجود گھڑی وقت صحیح نہیں بتاتی کیا؟”
دوسرا: 3000 کی ایک گھڑی پسند آئی ہے اب پسند کے سامنے کس کی چلتی ہے؟”
پہلا : “پہلے لائبریری جاکر اپنی ماہانہ فیس 300 روپے ادا کرتے ہیں پھر بازار چلیں گے۔”
دوسرا: “امتحانات ختم ہونے کے بعد میں وہاں گیا ہی نہیں۔” تو اب فیس کیوں ادا کروں؟ ویسے بھی مجھے فضول خرچی پسند نہیں۔”

سو لفظوں کی کیانی

رمضان کا میینہ
ایک حاجی ریڑھی والے کے پاس آیا۔پوچھنے لگا “کیا آپکو معلوم ہے یہ کونسا مہینہ ہے”؟
ریڑھی والے: “ہاں!! جون کا مہینہ ہے”۔
“نہیں، اسلامی مہینے میں کونسا مہینہ ہے”؟
ریڑھی والے:”رمضان کا مہینہ ہے”
“آپکو شرم نہیں آتی رمضان کے مہینے میں چاول چولے بھیجتے ہو”؟
ریڑھی والے: “کیا آپکا اپنا مکان ہے”؟
ہاں
ریڑھی والے: “کیا آپکا کوئی بیٹا یورپ یا آسٹریلیا میں ہے”؟
“الحمداللہ دو بیٹے آسٹریلیاء میں ہیں”
ریڑھی والے: “مجھے 12،000 دیدو گھر کا کرایہ ادا کرنا ہے”۔
اس دوران ایک گاہک آیا اور 50 روپے کا چھولے مانگا۔
حاجی چلا گیا۔

ہزارہ لائیبریری

سید داود اور قبضہ مافیاں نے اتنے سالوں سے ہزارہ لائیبریری کو صرف اس لئے بند رکھا ہے کہ وہاں لڑکے لڑکیاں اکٹھے بیٹھ کر پڑھےگےجس سے عید گاہ کی بےحرمتی ہوگی
جب مرد اور عورتیں، لڑکے اور لڑکیاں مسجد میں نماز پڑھنے اور خطبہ سننے جاتےہیں۔ بےشک مردوں اور عورتوں کیلئے حال مختلف ہیں مگر راستہ تو ایک ہے اس وقت مسجد کی بےحرمتی کیوں نہیں ہوتی؟
سید داود کےبقول کہ انکی بیٹی خود بلوچستان یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے جو کہ اچھی بات ہے لیکن جہاں تک میرے علم میں ہے بلوچستان یونیورسٹی بھی کوایجوکیشن ہے وہاں بھی لڑکے اور لڑکیاں اکٹھے تعلیم حاصل کرتےہیں۔ لیکن یہ میرے علم میں نہیں کہ سید داود نے اپنی بیٹی کیلئے نیا ڈیپاٹمنٹ کھولی ہے یا نہیں کہ جہاں پر لڑکے اور لڑکیاں الگ الگ تعلیم حاصل کریں۔ اگر بلوچستان یونیورسٹی میں لڑکے اور لڑکیوں کیلئے الگ ڈیپاڑمینٹ نہیں ہے اور سید داود کی بیٹی وہاں زیر تعلیم ہے تو اسے ہزارہ لائبریری میں لڑکے اور لڑکیوں پر اعتراز کیوں ہے؟
یہاں مزید سوال پیدا ہوتی ہے کہ کیا سید داود کو واقعی ہزارہ عید گاہ کی حرمت کی فکر ہے؟ یا پھر وہ قوم کے بیٹے یا بیٹیوں کو تعلیم سے دور رکھنا چاہتےہیں؟

سو لفظوں کی کہانی

موٹرسائیکل
ایک آدمی کی چار بیٹیاں تھیں۔ وہ بہت خوش تھے۔ مگر پھر بھی اسکی خواہش تھی کہ اسکا ایک بیٹا ہو۔ بہت دعاوں کے بعد اسکی تمنا پوری ہوئی۔ وہ اپنی بیٹیوں کی طرح اپنے بیٹے کی بھی ہر خواہش پورا کرتا تھا۔ اسکا بیٹا ہر سال کلاس میں ٹاپ تھری میں ضرور آتا تھا۔ جب آٹھویں جماعت میں پہنچا تو موٹر سائیکل کی فرمائش کی۔ باپ نے شرط رکھی کہ اگر اس سال پہلی پوزیشن لی تو اسے موٹر سائیکل مل جائے گی۔ لڑکے نے پوزیشن تو لے لی۔ لیکن اسکے بعد آج تک وہ اچھے نمبروں سے پاس نہیں ہوا۔

معاشرے کی ضرورت کیا ہے

ہمارے معاشرے کو علم و دانش کی ضرورت ہے لوگ جہالت اپنا رہے ہیں۔
معاشرے کو قلم و کتاب کی ضرورت ہے لوگ موٹر سائیکل اور گاڑی خرید رہےہیں۔
معاشرے کو لائیبریری کی ضرورت ہے بااثر حضرات نے لائیریری پر پابندی لگائی ہے۔
معاشرے میں لائیبریری کی تعداد اضافہ کرنے کی ضرورت ہے جبکہ کچھ لوگ امید لائیبریری کو بند کرکے سنوکر کلب کھولنا چاہتےہیں۔
معاشرے کو پڑھنے کیلئے ماحول کی ضرورت ہے لوگ گیم زون کھول رہےہیں۔
معاشرے میں طلباء و طالبات کی رجحانات نصابی و غیر نصابی کتابوں پر کرنے کی ضرورت ہے جبکہ ان کی توجہ موبائل، فیس بک اور فضول خرچی پر ہیں۔
معاشرے میں اپنی بیٹی کیلئے انسان دوست شخصیت کی تلاش کرنے کی ضرورت ہے جبکہ لوگ غیرملکی تلاش کررہےہیں۔
معاشرے میں انسانیت زیادہ کرنے کی ضرورت ہے جبکہ حیوانیت زیادہ ہو رہےہیں۔
معاشرے میں غریبوں کیلئے زریعہ آمدن بنانے کی ضرورت ہے لوگ انہیں بھیکاری بنا رہےہیں۔
معاشرے میں تعلیمی ادارے اضافہ کرنے کی ضرورت ہے لوگ شورومز اور ہوٹلیں کھول رہےہیں۔
معاشرے میں فضول رواجات اور اخراجات کو کم کرنے کی ضرورت ہے جبکہ لوگ مزید اضافہ کررہےہیں۔

سو لفظوں کی کہانی

کچھوا اور خرگوش
ایک تھا کچھوا ایک تھا خرگوش
ایک دن دونوں نے ریس لگائی
خرگوش کو اپنی تیز رفتاری پر بہت ناز تھا جب وہ بہت دور پہنچا تو سوچا جب تک کچھوا آئےگا کیوں نہ تھوڑی دیر کیلئے سو جاو۔ جب وہ سو رہا تھا تو اسے احتلام ہوگیا پھر نیند سے اڑ کر تالاب میں نہانے گیا ادھر کچھوے کا گزر ہوا تو اس نے خرگوش کی کپڑے اٹھا کر اپنے ساتھ لے گیا خرگوش باہر نکلا تو اسکےکپڑے غائب تھا پھر واپس تالاب میں جاکر رات تک تالاب میں بیٹھا رہا۔اور یہاں کچھوا ریس جیت گیا۔

سو لفظوں کی کہانی

قبضہ مافیاں
“یہ کون ہے”؟
“کوئٹہ کے کمیشنر ہے۔ نئی آئی ہے”
“یہ کیا کرتی ہے”؟
“یہ شہر میں غیر قانونی کاموں کو روکتی ہے”
مثلا”؟
مثلا” “ذخیرہ اندوزوں، گیران فرشوں کے گوداموں اور اسٹوروں پر چھاپے مارتی ہے۔ قبضہ مافیاں کیخلاف کاروائی کرتی ہے۔ یہاں تک کہ امتحانی مراکز پر بھی چھاپے مارتی ہے یہ کسی سے نہیں ڈرتی۔ سب اس سے ڈرتے ہیں۔”
“یہ لوگ یہاں کیوں بیٹھے ہیں”؟
“کروڑوں روپے کی مالیت سے بنائی گئی لائبریری کیلئے احتجاج کررہے ہیں۔ جسے قبضہ مافیاں نے بند رکھا ہے
کمیشنر اس قبضہ مافیاں کیخلاف کاروائی کیوں نہیں کرتی”؟
“مجھے نیند آئی ہے شب بخیر”

مصنف، شاعر اور ہمارا معاشرہ

               کیا ہمارے معاشرے کو علم و دانش کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اگر یہ سوال لوگوں سے پوچھا جائے تو نوےفیصد سے زائد لوگ “ہاں” میں جواب دیں گے۔ لیکن صرف “ہاں” میں جواب دینے سے معاشرے میں علم و دانش کا اضافہ تو نہیں ہوگا ہمیں مل کر صحیح معنوں میں حصول تعلیم کا رجحان عام کرنا ہوگا اور  طلباء و طلبات میں نصاب کےساتھ ساتھ غیر نصابی کتابوں کی رجحان بھی پیدا کرنا ہوگا_ مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں غیر نصابی کتابیں پڑھنے کا رجحان بہت کم ہے اسی وجہ سے معاشرے میں مصنف اور شاعر بھی کم تعداد میں موجود ہے_
        معاشرے میں غیر نصابی کتابیں پڑھنے کا رجحان اس وقت اضافہ ہوگا جب ہر اسکول، ہر کالج، ہر تعلیمی ادارہ طلباء و طلبات میں مضمون نویسی اور کہانی نویسی کے مقابلہ طواطر سے ہونگے_ اس کے بعد یہی مضمون نویسی اور کہانی نویسی کے مقابلے معاشرے میں مختلف اسکولز اور کالجز کے مابین منعقد ہونگے اور مقابلے میں نمایاں کارگردگی کرنے والے طلباء اور طلبات کی حوصلہ افزائی کیلئے انعام و اکرام کا بندوبست بھی کریں گے۔ اور معاشرے میں غیر نصابی کتابیں پڑھنے کے فوائد بیان کرنے کیلئے مختلف سیمینار اور ورک شاپ بھی انعقاد ہوگا_
        معاشرے میں غیر نصابی کتابیں پڑھنے کا رجحان زیادہ کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں معاشرے میں موجود مصنفوں اور شاعروں کی عزت اور قدر بھی کرنا ہوگی ان کی حوصلہ افزائی کیلئے ان کی اشاعت کردہ تصانیف کی تشہیر اور فروغ میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہوگا۔ تاکہ ان کی دلجوئی ہو اور وہ مزید اپنی کتاب اور شاعری پر توجہ دے مزید برآں  مختلف تعلیمی پروگراموں میں  مصنف اور شاعروں کو بطور مہمان خصوصی مدعو کرنے سے معاشرے میں ان کی قدر و منزلت کو دیکھ کر طلباء اور طلبات میں بھی شوق پیدا ہوجائے_ مگر بدقسمتی سے ہم نہ صرف ان کی کتابوں کو نظر انداز کرتےہیں بلکہ کچھ ذاتی اختلاف رائے رکھنے والے حضرات اپنی کم ظرفی دکھا کر سوشل میڈیا ( فیس بک اور ٹویٹر)  پر ان کی نہ صرف بے عزتی کرتے ہیں بلکہ ان کے نجی معاملات  پر بھی انگلی اٹھاتے ہیں_
        معاشرے میں غیر نصابی کتابیں پڑھنے کا رجحان نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے معاشرے کے اہل ادب کی کتابیں اشاعت ہونے کے بعد اسٹیشنریوں میں مہینوں پڑے رہتےہیں سوائے چند لوگوں کے کوئی خریدنے والا نہیں ملتا_ میں ایسے شاعر کو بھی جانتا ہوں جس کی کتاب صرف 200 روپے میں شائع ہوئی تھی مگر ایک ہفتے کے بعد شاعر خود مختلف اسٹیشنریوں میں جاکر اپنی کتاب کی قیمت تبدیل کرکے پرانی قیمت پر 150 روپے کا ٹیگ لگایا_ اب ایسے حالات میں کونسا مصنف یا شاعر چاہےگا کہ وہ اپنی کتاب شائع کریں؟ جبکہ اسے کتاب شائع کرنے کے بعد فائدہ تو دور کی بات، کتاب پر خرچ ہوئی رقم بھی وصول نہیں ہوتی_
       لوگ لاکھوں میں گاڑی اور ہزاروں روپے میں موٹرسائیکل اور موبائل خرید کر اس پر مزید ہزاروں روپے خرچ کرتے ہیں مگر 200 سے 300 روپے کی غیر نصابی کتاب خریدنے میں کتراتےہیں اور 200 سے 300 کی کتاب خریدنے کو پیسے کا ضیاع سمجھتےہیں_ اس کی سادہ مثال یہ ہے کہ ایک روڑ پر 10 سے زائد، ہوٹلیں، جوس کی دکانیں، موٹرسائکل شورومز، گارمنٹس کی دکانیں، شاپنگ سینٹرز اور بیکری کی دکانیں موجود تو ہے مگر کتابوں کی ایک بھی دکان موجود نہیں_
        ہمارے معاشرے میں سینکڑوں محلے یا گلیاں ہیں اور ہر محلے یا ہر گلی میں 20 سے زائد گھر آباد ہے اگر ہر محلے یا ہر گلی سے صرف  2 گھر بھی ان مصنفوں اور شاعروں کی کتابیں خریدیں تو بھی آفاقہ ہوگا_ اگر معاشرے میں کتابیں پڑھنے کا رجحان زیادہ ہوجائے تو معاشرے میں اہل شوق اور اہل ادب بھی بڑےگا۔ کیونکہ مصنف اور شاعر کی آمدنی اس کی کتابوں پر منحصر ہوتی ہے مگر ہمارے مصنف اور شاعر دکانداری کرتے ہیں اور اپنی جمع کنجی اپنی کتاب کی اشاعت پر خرچ کرتے ہیں جوکہ اسے فائدہ ہونے کے بجائے نقصان ہوتا ہے_ اور مصنف اور شاعروں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی کتاب مقامی پبلشر کے بجائے کسی بڑے پبلشر کو شائع کرنے کیلئے دےدیں تاکہ ان کی کتاب پورے پاکستان میں پھیل جائیں_